Powered By Blogger

Saturday, 24 February 2018

میرا محسن میرا قاتل

زمانہ جاہلیت کے بد ترین افعال میں سے ایک بچوں کا قتل تھا۔دینِ اسلام نے اس شرمناک فعل کی بھرپور مذمت کی ہے۔
اور ارشاد ہوا
 اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل مت کرو
                                                       (القران)
نظامِ قدرت ہے کہ ہر معاشرے کے اچھے اور بُرے پہلو ہوتے ہیں۔جزا اور سزا کا دائرہ چلتا رہتا ہے۔علم کی روشنی انسان کو اشرفلمخلوقات بناتی ہے۔جہاں یہ روشنی دنیا کو جدت کی طرف لے جا رہی ہے۔وہیں ظلم و ستم کے نئے ہتھکنڈے بھی منظرِعام پر آرہے ہیں۔معصوم چراغ آج بھی بجھائے جا رہے ہیں لیکن طریقہ واردات اس قدر موثر کہ مظلوم ظلم بیان نہ کر سکے اور ظالم ہر سزا سے بری ہے۔
بچوں کو زندہ جلانے یا دفنانے کی وقتی اور جسمانی تکلیف کو بڑھا کر اب روح کا بھی شکار کیا جانے لگا ہے۔بچے کو نہ مارا جاتا ہے نہ زندگی بخشی جاتی ہے۔ہمارا معاشرہ اس ظلم کو اک مشغلہ بنا کر نئی نسل کو اپنی سوچ اور روایات کا غلام بنانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔والدین بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی قاضی کی حیثیت سے حکم صادر کرتے ہیں کہ یہ ڈاکٹر بنے گا دوسرا انجینئر۔نومولود کو اپنا آپ ماں کی گود میں دفن کر کے اس حکم کا غلام بننا ہوتا ہے۔یقیناََ ماں باپ کا بچے سے مخلص ترین رشتہ ہوتا ہے لیکن کہیں نہ کہیں معاشرے یا خاندانی دباؤ کا شکار ہو کر بچے کی جائز خواہشات کے قاتل بن جاتے ہیں۔
میڈیکل ریسرچ کے مطابق ایسے والدین کی فطرت دو طرح کی ہوتی ہے۔اک وہ والدین جو آمرانہ رویہ (Authoritating Parents) رکھتے ہیں۔وہ بچے کی سوچ اور خواہشات کے خود مالک ہوتے ہیں۔بچے کو صرف وہی سوچنا اور کرنا ہوتا ہے اس کے والدین چاہتے ہیں۔دوسرے وہ والدین جو حد درجہ حساس ہوتے ہیں۔میڈیکل کی ذبان میں ان کیلیے اوور پیرنٹینگ (Over Parenting) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ایسے والدین بچوں کے ہر کام میں نوک جھونک کرتے ہیں۔ ہر معاملے میں ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔مزید یہ کہ بلا ضرورت مدد سے بچوں کی فطری صلاحیتوں کو ذنگ آلود کرتے ہیں۔نتیجتاََ بچے زندگی کے ہر قدم پر سہارے کے محتاج ہوتے ہیں اور معلومی سے معمولی فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھتے ہیں۔
ایسے والدین یا تو بچوں کو بغاوت پر مجبور کرتے ہیں یا پھر ایسے بچے جنم دیتے ہیں جو معاشرے کے ناکارہ افراد میں شمار کیے جاتے ہیں اور جو کہتے نظر آتے
اپنوں کی سوچ کے غلام ہیں ہم
نئ سوچ سوچنے سے بیزار ہیں ہم
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مشاورت (counseling) کے ذریعے والدین کو بتلایا جائے کہ ہر اس جائز معاملے میں بچوں کا ساتھ دیں جو فطری اور اخلاقی روح سے درست ہے۔اس جائز کام کی حوصلہ افزائی کی جائے جس میں بچہ دلچسپی رکھتا ہے۔پھر چاہے وہ علم و ادب کا میدان ہو یا کھیل کا۔جس دن یہ معاشرہ نئی نسل کی نئی سوچ کو قبول کر لے تو یقیناََ تاریخ میں پھر سے محمد بن قاسم, عبدالقدیر خان اور عارفہ کریم جیسے نام رقم ہونگے۔اور پھر والدین کے فرمانبردار اور ملک کے جانثار پیدا ہونگے۔

No comments:

Post a Comment

How Online Pediatric Physical Therapy Can Help Your Child in the UK

If you are a parent in the UK caring for a child with special needs—whether it’s cerebral palsy, developmental delay, Down syndrome, or auti...