Powered By Blogger

Saturday, 24 February 2018

نماز اور فزیوتھراپی


دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ پہلو اسے دوسرے مذاہب سے مقدم بناتا ہے۔جہاں اسلام ہمیں آخروی زندگی میں کامیابی کے لیے اچھے اخلاق,نیک اعمال اور عبادات کا درس دیتا ہے وہیں بہترین دنیاوی زندگی گزارنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات اور عبادات نہ صرف روحانی بلکہ جسمانی نشونما میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔اپنی صحت کا خیال رکھنا ہمارا مذہبی فریضہ بھی ہے۔
رسول صلیﷲعلیہ وسلم نے فرمایا:
 ﷲ تعالی طاقتور مومن کو کمزور مومن کی نسبت زیادہ پسند فرماتے ہیں۔
نماز, روزہ, حج اور جہاد جیسی عبادات سے روحانیت کے درس کے ساتھ ساتھ بہت سے جسمانی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔میڈیکل ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز جسمانی صحت پر بہت سے مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔
فزیکل تھراپی کا مقصد جسمانی صحت بحال کرنا اور اس میں بہتری لانا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ جس حد تک ممکن ہو جسم کو حرکت میں رکھا جائے۔اور آپ صلیﷲعلیہ وسلم نے نماز کے ذریعے اس کی یوں ترغیب فرمائی ہے۔
 کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور اگر نہیں کر سکتے تو بیٹھ کر پڑھو اور اگر اس طرح بھی نہیں تو لیٹ کر نماز پڑھو
(بخاری)
نماز کی مختلف پوزیشنز کا جسمانی صحت پر اثرات کا ذکر کریں تو ثابت ہوتا ہے کہ نماز ان بہت سے ورزشوں کا بہترین مجموعہ ہے جو ایک فزیوتھراپسٹ اپنے مریضوں کو کرواتا ہے۔
قیام کی حالت میں ہاتھوں کو باندھ کر کندھے ڈھیلے چھوڑ دینے سے جسم کا سارا وزن برابر دونوں پیروں پر منتقل ہو جاتا ہے۔یہ عمل نارمل جسمانی پوزیشن (Good posture) برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔
رکوع کرتے ہوئے کمر اور پنڈلیوں میں کھچاؤ کمر,خاص کر کمر کے نچلے حصے کے درد (Low back pain) سے نجات کے لیے بہترین ورزش مانی گئی ہے۔
سجدے کی حالت میں جب پیشانی زمین پر ٹیک دی جاتی ہے اور گھٹنے سینے کے طرف جھک جاتے ہیں جسے فزیوتھراپی کی زبان میں (.knee to chest ex) کہا جاتا ہے۔یہ ورزش کمر درد سے نجات,کولہا اور گردن کے پٹھون کے لیے مفید ہے.اور سجدے سے اٹھتے وقت کندھوں کا توازن اور طاقت کی بحالی کا ذریعہ ہے۔اتنا ہی نہیں اس پوزیشن میں خون کا بہاؤ بھی مستحکم ہوتا ہے۔اس حالت کا ذکر یوں کیا گیا ہے۔
 نمازی سجدے کی حالت میں اپنے رب کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔(
بخاری)
سجدے کے بعد حالتِ تشہد میں بیٹھا جاتا ہے۔بیٹھنے کا یہ مخصوص انداز ٹخنے,پاؤں اور پاؤں کی انگلیوں میں کھچاؤ پیدا کرتا ہے۔ اور یہ ورزش پنڈلی کے درد کے لیے مفید ثابت ہوئی ہے۔
نماز کے آخر میں جب سلام پھیرتے وقت سر کو موڑا جاتا ہے تو یہ ورزش گردن کے درد سے نجات کا سبب ہے اور ساتھ ہی ساتھ گردن کی رینج (Range of motion) برقرار رکھتی ہے۔پانچ وقت نماز کے لیے مسجد میں چل کر جانا اور پانچ سے دس منٹ نماز جیسا عمل ہماری روزانہ کی ورزش کی ضرورت کو پورا کر دیتی ہے۔اس سے جسم اور دل کے پٹھے بھی صحت مند رہتے ہیں۔خون کا بہاؤ بہتر ہوتا ہے اور یہ ورزش جسم کی قدرتی درد کی دوا انڈورفن (Endorphins) کو ایکٹو کرتی ہے جس سے درد میں کمی اور بہتری کا خوشگوار احساس ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پٹھوں کے تناؤ میں بہتری آنے سے اڈرینالین جیسے ہارمون قابو میں رہتے ہیں۔عصبی نظام پرسکون رہتا ہے۔دل کی شرح (heart rate), فشار خون (blood pressure) نارمل ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں ٹینشں, ذہنی تناؤ جیسی مہلک بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے۔
غرض کہ نماز ایک عالمگیر مذہب کی ایسی عملی عبادت ہے جو روح,دل,دماغ اور جسم کے لیے شفا ہے۔میڈیکل ریسرچ آج نماز کو بہترین ورزش ماننے پر مجبور ہے جبکہ آپ صلیﷲعلیہ وسلم نے 1400 سال پہلے ہی اس بات کو ان الفاظ میں واضح کر دیا تھا۔
قُم فَصَلِّ اِنَّ فِی الصَلواتِ شِفاَء (ابن ماجہ)
کھڑے ہو اور نماز ادا کرو,نماز میں شفا ہے

میرا محسن میرا قاتل

زمانہ جاہلیت کے بد ترین افعال میں سے ایک بچوں کا قتل تھا۔دینِ اسلام نے اس شرمناک فعل کی بھرپور مذمت کی ہے۔
اور ارشاد ہوا
 اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل مت کرو
                                                       (القران)
نظامِ قدرت ہے کہ ہر معاشرے کے اچھے اور بُرے پہلو ہوتے ہیں۔جزا اور سزا کا دائرہ چلتا رہتا ہے۔علم کی روشنی انسان کو اشرفلمخلوقات بناتی ہے۔جہاں یہ روشنی دنیا کو جدت کی طرف لے جا رہی ہے۔وہیں ظلم و ستم کے نئے ہتھکنڈے بھی منظرِعام پر آرہے ہیں۔معصوم چراغ آج بھی بجھائے جا رہے ہیں لیکن طریقہ واردات اس قدر موثر کہ مظلوم ظلم بیان نہ کر سکے اور ظالم ہر سزا سے بری ہے۔
بچوں کو زندہ جلانے یا دفنانے کی وقتی اور جسمانی تکلیف کو بڑھا کر اب روح کا بھی شکار کیا جانے لگا ہے۔بچے کو نہ مارا جاتا ہے نہ زندگی بخشی جاتی ہے۔ہمارا معاشرہ اس ظلم کو اک مشغلہ بنا کر نئی نسل کو اپنی سوچ اور روایات کا غلام بنانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔والدین بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی قاضی کی حیثیت سے حکم صادر کرتے ہیں کہ یہ ڈاکٹر بنے گا دوسرا انجینئر۔نومولود کو اپنا آپ ماں کی گود میں دفن کر کے اس حکم کا غلام بننا ہوتا ہے۔یقیناََ ماں باپ کا بچے سے مخلص ترین رشتہ ہوتا ہے لیکن کہیں نہ کہیں معاشرے یا خاندانی دباؤ کا شکار ہو کر بچے کی جائز خواہشات کے قاتل بن جاتے ہیں۔
میڈیکل ریسرچ کے مطابق ایسے والدین کی فطرت دو طرح کی ہوتی ہے۔اک وہ والدین جو آمرانہ رویہ (Authoritating Parents) رکھتے ہیں۔وہ بچے کی سوچ اور خواہشات کے خود مالک ہوتے ہیں۔بچے کو صرف وہی سوچنا اور کرنا ہوتا ہے اس کے والدین چاہتے ہیں۔دوسرے وہ والدین جو حد درجہ حساس ہوتے ہیں۔میڈیکل کی ذبان میں ان کیلیے اوور پیرنٹینگ (Over Parenting) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ایسے والدین بچوں کے ہر کام میں نوک جھونک کرتے ہیں۔ ہر معاملے میں ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔مزید یہ کہ بلا ضرورت مدد سے بچوں کی فطری صلاحیتوں کو ذنگ آلود کرتے ہیں۔نتیجتاََ بچے زندگی کے ہر قدم پر سہارے کے محتاج ہوتے ہیں اور معلومی سے معمولی فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھتے ہیں۔
ایسے والدین یا تو بچوں کو بغاوت پر مجبور کرتے ہیں یا پھر ایسے بچے جنم دیتے ہیں جو معاشرے کے ناکارہ افراد میں شمار کیے جاتے ہیں اور جو کہتے نظر آتے
اپنوں کی سوچ کے غلام ہیں ہم
نئ سوچ سوچنے سے بیزار ہیں ہم
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مشاورت (counseling) کے ذریعے والدین کو بتلایا جائے کہ ہر اس جائز معاملے میں بچوں کا ساتھ دیں جو فطری اور اخلاقی روح سے درست ہے۔اس جائز کام کی حوصلہ افزائی کی جائے جس میں بچہ دلچسپی رکھتا ہے۔پھر چاہے وہ علم و ادب کا میدان ہو یا کھیل کا۔جس دن یہ معاشرہ نئی نسل کی نئی سوچ کو قبول کر لے تو یقیناََ تاریخ میں پھر سے محمد بن قاسم, عبدالقدیر خان اور عارفہ کریم جیسے نام رقم ہونگے۔اور پھر والدین کے فرمانبردار اور ملک کے جانثار پیدا ہونگے۔

Sunday, 4 February 2018

سی پی کا علاج


 سی پی کیا ہے؟
 سیریبرل پالسی ( Cerebral Palsy ) کو عرفِ عام میں سی ۔پی کے  نام سے جانا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں اس کی تشریح کی جائے تو ہم اسے دماغی فالج کہہ سکتے ہیں۔ یہ عموماََ چھوٹی عمر میں ہی واضح ہو جاتا ہے۔

(فزیو تھراپی سے سی پی بچے میں بہتری کیسے آتی ہے. ویڈیو لنک میں موجود ہے.) 
https://youtu.be/VJXqYOG2-hs

سی پی کی وجوہات:
سی پی دماغ کی نامناسب نشونما یا دماغ کے کسی حصے کو دورانِ حمل , زچگی یا پیدائش کے فوراً بعد نقصان پہنچنے سے ہوتا ہے۔  میڈیکل سائنس اس بیماری کی واضح وجہ بتانے سے قاصر ہے۔
سی پی کئی طرح سے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کا حملہ بعض اوقات اس قدر شدید ہوتا ہے کہ یہ محسوس کرنے, دیکھنے, سننے, بولنے اور نگلنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اور ممکن ہے یہ اس قدر معمولی حملہ ہو کہ پاؤں کے انگھوٹے تک ہی محدود ہو جائے۔
سی پی کی اقسام:
پٹھوں کی ممکنہ صورتحال کے مطابق سی پی کی تین اقسام ہیں۔
Spastic Cerebral Palsy
اس قسم میں پٹھے اس قدر سخت ہو جاتے ہیں کی ان کو حرکت دینا محال ہو جاتا ہے۔تحقیق کے مطابق %70 سی پی کے مریض ای قسم میں مبتلا ہوتے ہیں۔
 Ataxic Cerabral Palsy
 سی پی کی ایسی قسم ہے جس میں مریض جسم کی حرکات کو قابو کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔تناسب کے لحاظ سے اس قسم کے مریض%١٠ ہیں۔
Athetoid Cerebral Palsy
سی پی کی اس تیسری قسم میں پٹھوں میں موجود قدرتی  تناؤ یا تو شدید بڑھ جاتا ہے یا اس قدر کم ہو جاتا ہے کہ اس کا استعمال محال ہو جاتا ہے۔ ١٠فیصد سی پی کے مریض اس قسم کا شکار ہیں۔
بچے کے متاثرہ ہونے کا اندازہ بچے کی نشونما کے ساتھ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نارمل بچے دو ماہ کی عمر میں سر کو کنٹرول کرنا سیکھ جاتےہیں, رول کرنا یا گھومنا  چار مہینے , بیٹھنا چھ مہینے اور اسی طرح ایک سال کی عمر کو پہنچتے چلنا سیکھتے ہیں جبکہ سی پی کے شکار بچے ان کاموں کو سرانجام دینے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں۔
علاج:
  سی پی ایک قابلِ علاج مرض ہے۔ اس کے علاج میں ایک بڑی رکاوٹ ہمارے خطے میں شرع خواندگی کا اس قدر کم ہونا اور گلی محلوں میں پائے جانے والے نیم حکیم ہیں جو اس مرض کو لا علاج قرار دے کر مجبور ماں باپ کی امیدوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ جبکی ایسا بلکل نہیں ہے۔ علاج کیلئے جہاں مریض کا ذہنی اور جسمانی تعاون درکار ہوتا ہے بلکل اسی طرح مریض کے والدین,بہن بھائی اور قرابت داروں کا تعاون بھی نہایت ضروری ہے۔ اس کی بروقت تشخیص اور مناسب علاج اس کی بہتری کے ضامن ہیں۔ اس کے طریقہ علاج میں فزیوتھراپی سرِفہرست , بااعتماد اور جدید طریقہ علاج ہے۔ نومولود بچوں میں سی پی کی  بیان کی گئی علامات محسوس ہوتے ہی پیروں فقیروں, نیم حکیموں اور دم درودوں پر وقت اور پیسہ ضائع کیے بغیر معاملے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے فزیوتھراپسٹ سے رابطہ کیا جائے۔ کیونکہ بہترین علاج بروقت اور صحیح تشخیص کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
فزیوتھراپی:
فزیوتھراپی کے ذریعے سی پی کے شکار بچوں میں درد کی شدت کو کم کیا جاتا ہے۔ جسم کے پٹھے جو نسبتاً اکڑے ہوئے یا سخت ہوتے ہیں انہیں نارمل حالت میں لانے کے ساتھ ساتھ جوڑوں کو حرکت دی جاتی ہے تاکہ متاثرہ بچے کو روز مرہ کے کام کاج میں درشواری کا سامنا نہ ہو۔
سی پی کے علاج میں فزیوتھراپسٹ کے چند اہم مقاصد یہ ہیں۔
درد کی شدت کو کم سے کم کرنا۔
سخت اور اکڑے ہوئے پٹھوں کو اصلی حالت میں لانا۔
جسمانی توازن کو برقرار رکھنا۔
دماغ اور پٹھوں کے درمیان رابطہ بہتر بنانا۔
پوسچر اور مریض کی چال کو بہتر کرنا۔
مریض کو روز مرہ کے کام کاج میں خودمختار کرنا۔
ازقلم: ڈاکٹر عبدالمنان فزیوتھراپسٹ
 (نوٹ:یہ مضمون مفادعامہ کیلئے ہے)

How Online Pediatric Physical Therapy Can Help Your Child in the UK

If you are a parent in the UK caring for a child with special needs—whether it’s cerebral palsy, developmental delay, Down syndrome, or auti...